|

Meri Wehshiton Ky Saye By Farwa Khalid Complete Pdf Novel

Farwa Khalid is the author of the novel Meri Wehshiton Ky Saye. You can read it online by clicking the image below, and also download the PDF file.

Meri-Wehshiton-ky-Saye-By-Farwa-Khalid

Meri Wehshiton Ky Saye Ebook Romantic novel

Meri Wehshiton Ky Saye

بونیر کے نوکدار سرسبز پہاڑوں کی چوٹیوں میں یوسفزئی حویلی کے وسیع و عریض احاطے میں اس وقت اندھا دھند فائرنگ کی جارہی تھی۔۔۔ آسمان پر کی جانے والی آتش بازی کی وجہ سے رات کی تاریکی دن کے اجالوں میں تبدیل ہوچکی تھی۔۔
یہ ان پشتون قبیلوں کا جشن منانے کا روایتی انداز تھا۔۔۔ اورنگزیب یوسفزئی الیکشن جیت چکے تھے۔۔۔ پچھلے دو بار کی طرح اس بار بھی انہیں ایم این اے کی سیٹ سے کوئی نہیں ہٹا پایا تھا۔۔ ان کا خوشی منانے کا یہ انداز ان کے اپنے لوگوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں تک بھی باآسانی پہنچتا تھا۔۔ اور ان کے ہار کا سوگ مزید گہرا کر دیتا تھا۔۔۔
حویلی کے باہر ہی نہیں بلکہ اندر بھی جشن کا سماں تھا۔۔ بڑے سے دالان میں ساری خواتین جمع تھیں۔۔ جس کے ایک جانب تخت پر اس حویلی کی خاتونِ اول ورانہ خانم براجمان تھیں۔۔ جن کے ارگرد ان کی بیٹیاں، بہوئیں اور خاندان کی باقی خواتین موجود تھیں۔۔۔
سب کے چہرے کھلے ہوئے تھے۔۔۔ یہ بات تھی ہی بہت خوشی کی۔۔ سردار اورنگزیب جو وہاں کے سات معزز قبائل کے سرداروں کے بھی سردار تھے۔۔۔ ان کو ملکی سیاست میں بھی ہرانے کی طاقت کوئی نہیں رکھتا تھا۔۔
خواتین بھی اپنے پشتون گانوں پر رقص کرتیں اپنے طریقے سے اپنی خوشی منا رہی تھیں۔۔۔
“یا اللہ۔۔ یہ پاگل ہوگئے ہیں کیا۔۔؟؟”
زرغونہ نے خفگی سے اپنی بک بیڈ پر پٹختے کانوں پر ہاتھ رکھا تھا۔۔
اس کا کل بہت اہم ٹیسٹ تھا۔۔۔ وہ اس شور شرابے کو اگنور کرتی پڑھنے کی کوشش کررہی تھی مگر اتنے شور میں اس کے پلے کچھ نہیں پڑ رہا تھا۔۔
“زرغونہ۔۔۔ او زرغونہ۔۔۔۔”
وہ جو دروازہ لاک کیے بیٹھی تھی۔۔۔ دروازے پر دونوں ہاتھوں سے کی جانے والی زور دار دستک پر اس کے چہرے کے زاویے مزید بگڑ گئے تھے۔۔۔ کیونکہ اپنے نام کی پکار کی جو آوازیں اس کے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔ وہ اسے تپا کر رکھ گئی تھیں۔۔۔
وہ اپنی جگہ سے اٹھتی دروازہ کھول گئی تھی۔۔ سامنے ہی بنفشہ اور خاجستہ کھڑی اسے کڑے تیوروں سے گھور رہی تھیں۔۔ آج ایک طرح سے اس حویلی میں عید ہی منائی جارہی تھی۔۔ وہ دونوں بھی نئے ملبوسات پہن کر تیار ہوئی تھیں۔۔ مگر زرغونہ ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنے ملگجے سے حلیے میں کھڑی تھی۔
اسے بلاوجہ سجنے سنورنے کا کوئی خاص شوق نہیں تھا۔۔ اور کچھ خاص ضرورت تھی بھی نہیں۔۔۔
وہ دودھیا سرخی گھلی رنگت اور پرکشش نقوش کی مالک اس سادہ سے حلیے میں بھی دیکھنے والوں کی نظریں جکڑنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔۔۔
“باہر کیوں نہیں آئی۔۔؟؟ خان بی بی غصہ کر رہی ہیں۔۔۔ انہوں نے کہا ہے کہ حویلی کی ساری خواتین محفل میں ہونی چاہیں۔۔”
اسے دروازہ کھول کر واپس پلٹتا دیکھ وہ دونوں بھی اس کے پیچھے اندر آگئی تھیں۔۔۔
“میرے پاس فالتو وقت بالکل بھی نہیں ہے۔۔ بتا دو اپنی خان بی بی کو۔۔۔”
زرغونہ کا موڈ آج کچھ زیادہ ہی آف تھا۔۔۔ بلکہ ایک ہفتے سے یہ موڈ بگڑتا ہی جارہا تھا۔ جس کی پرواہ وہاں کسی کو نہیں تھی۔۔۔
“زرغونہ آج تو ایسا مت کرو۔۔ اتنی خوشی کا موقع ہے۔۔ آجاؤ چپ کرکے باہر۔۔۔’
خاجستہ نے اس کے سامنے سے بک لیتے ملتجی لہجے میں کہا تھا۔۔۔ وہ دونوں بھی اس کی کلاس فیلو تھیں۔۔ مگر اس پر ان دونوں سے زیادہ پڑھائی کا بھوت سوار رہتا تھا۔۔۔ جب بھی فارغ ہوتی تھی ان کتابوں میں ہی پائی جاتی تھی۔۔
“میرے لیے اس میں کسی قسم کی کوئی خوشی نہیں ہے۔۔ بلکہ اگر سچ کہوں تو میرے اندر مزید ہول اٹھ رہے ہیں یہ سوچ کر کہ اب اورنگریب یوسفزئی کے ظلم و ستم کی حد مزید بڑھ جائے گی۔۔۔ “
بکس بند کرتی وہ اٹھ کر کھڑکی کے پاس جاکر کھڑی ہوگئی تھی۔۔ جہاں سے اب باہر کی روشنیاں واضح دکھائی دے رہی تھیں۔۔ اس کی بات سنتے وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر رہ گئی تھیں۔۔ اس لڑکی کو کچھ بھی بولنے سے پہلے سوچنے کی عادت نہیں تھی۔۔ اور نہ ہی کسی قسم کا کوئی خوف تھا کہ وہ کس کے بارے میں کیا بات کر رہی تھی۔۔۔
“تو تم نیچے نہیں آرہی۔۔۔؟؟”
ان دونوں کو اب اس کا روم میں رہنا ہی ٹھیک لگ رہا تھا۔۔ ان کی بات کا زرغونہ نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔۔ جس پر وہ خاموشی سے باہر نکل گئی تھیں۔۔
اس لڑکی کی ضد کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔۔
∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆∆
“زرغونہ نیچے نہیں آئی۔۔۔؟؟”
ملازمین کو کھانے کی ہدایت کرتی صباحت نے بیٹی سے پوچھا تھا۔۔۔ جو ماں کی مدد کرنے کے لیے آج صبح سے کچن میں لگی تھی۔۔
“نہیں مورے۔۔۔ چھوڑیں آجائے گی۔۔۔”
زرمینے نے دھیمی آواز میں جواب دیتے سوپ کے باؤل اکٹھے کیے تھے۔۔ جبکہ صباحت گہرا سانس بھرتیں دوبارہ سے کام میں لگ گئی تھیں۔۔ وہ لوگ بھی اس حویلی کی خواتین کی طرح ہی تھیں۔۔ مگر ان کے ساتھ ہمیشہ سے ملازمین جیسا سلوک ہی کیا گیا تھا۔۔۔
باقی سب اس وقت سج سنور کر مہمانوں کے سامنے تخت پر بیٹھی تھیں۔۔۔ جبکہ وہ ماں بیٹیاں صبح سے ملازمین کی طرح کاموں میں لگی ہوئی تھیں۔۔ یہ کام ان کے زمے خان بی بی نے ہی لگائے تھے۔۔۔
یہ ناانصافی آج سے نہیں بہت سالوں سے چلتی آرہی تھی۔۔
جس کو وہ دونوں ماں بیٹیاں تو چپ کرکے برداشت کرتی آرہی تھیں مگر زرغوںہ نے ہر بار آواز اٹھائی تھی۔۔۔ یہ الگ بات تھی کہ اس کی بات سنی ہی نہیں جاتی تھی۔۔۔
“صباحت تمہاری چھوٹی لور(بیٹی) نظر نہیں آرہی۔۔۔ “
صباحت جیسے ہی باہر چائے دینے گئیں۔۔ خانم نے اس کی جانب دیکھتے کڑے تیوروں سے گھورا تھا۔۔۔ جس پر اتنی ساری خواتین کے سامنے وہ شرمندہ سی ہوتیں چہرا جھکا گئی تھیں۔۔
“اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی خانم۔۔۔ میں بلاتی ہوں اسے۔۔۔ ابھی آجاتی ہے۔۔”
صباحت نے فوراً سے بہانہ بنایا تھا۔۔۔ ورنہ خانم نے ابھی زرغونہ کے نہ آنے پر مہمانوں کا خیال کیے بغیر ان کی عزت دو کوڑی کی کر دینی تھی۔۔۔
“ہاں بلاؤ اسے۔۔۔ مہارانی بن کر ہر وقت کمرے میں ہی پڑی رہتی ہے۔۔ بتا دو اسے۔۔۔ اس حویلی کی خانم ہم ہیں۔۔ وہ جو بولتی اور کرتی پھر رہی ہے وہ ہونے نہیں دیں گے۔۔۔”
خان بی بی کی حقارت آمیز نگاہیں صباحت کے جھکے سر پر تھیں۔۔ باقی خواتین بھی انہیں کی جانب متوجہ ہوچکی تھیں۔۔۔ خانم کا رعب و دبدہ ایسا تھا کہ کسی کی جرأت نہیں تھی ان کے سامنے بات کرنے کی۔۔ یا کچھ بھی بولنے کی۔۔۔
سب خواتین خاموشی سے انہیں سن رہی تھیں۔۔
“کیا میرے پیٹھ پیچھے میرے بارے میں باتیں ہورہی ہیں۔۔؟؟ ارے خان بی بی سنا آپ مجھے یاد کر رہی تھیں۔۔۔ “
ہاتھ میں سرخ رنگ کا سیب اٹھائے وہ سیڑھیاں اترتے نظر آئی تھی۔۔ دوپٹہ کندھے پر جھول رہا تھا۔۔ لانبے سیاہ بالوں کی چٹیا کمر پر پڑی تھی۔۔ جس میں سے نکلتی لٹیں اس کے چہرے کے گرد بکھری ہوئی تھیں۔۔
اس کا حلیہ بہت عام سا تھا۔۔ مگر اس کے باوجود وہ وہاں بیٹھی زیورات سے لدی سجی سںوری خواتین کے حسن کو مات دیتی ان سب میں نمایاں تھی۔۔۔ اس کا یہ قیامت خیز حسن حویلی کی عورتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔۔
وہیں ایک جانب بیٹھی گل ورین نے اس کے حسین چہرے پر بکھری مسکراہٹ دیکھ نخوت سے پہلو بدلہ تھا۔۔۔
اس کو یہ لڑکی ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی۔۔ دل چاہتا تھا اسے کہیں ایسی جگہ دفع کرے کہ وہ کبھی واپس نہ آسکے۔۔
“یہ کیا حلیہ بنا رکھا ہے تمہاری بیٹی نے بہو۔۔۔ جاکر اس کا حلیہ اور زبان درست کرواؤ۔۔۔ بدلحاظ گستاخ۔۔۔ بیٹیوں کی اچھی تربیت تک نہیں کر سکی تم۔۔۔ خدا نے اسی خاطر بیٹے جیسی نعمت سے محروم رکھا تمہیں۔۔ “
خانم اس کے شاہانہ انداز پر تپ اٹھی تھیں۔۔۔ وہ اس وقت اس منہ پھٹ اور بلحاظ لڑکی کے منہ لگ کر اپنا موڈ غارت نہیں کرنا چاہتی تھیں۔۔۔ اسی لیے اسے جواب دینے کے بجائے صباحت کو مزید بے عزت کرتے اپنے الفاظ سے ان کا دل چھلنی کیا تھا۔۔
وہ اچھے سے جانتی تھیں کہ زرغونہ کو تکلیف کس طرح سے پہنچائی جا سکتی تھی۔۔
“خا۔۔۔۔”
زرغونہ ان کے ان توہین آمیز الفاظ پر اندر تک جھلس اٹھی تھی۔۔ اس کی وجہ سے یہ عورت اس کی ماں کو اس طرح سے بے عزت کر دیتی تھی۔۔۔ جو اب اس کی برداشت سے باہر ہوا تھا۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ انہیں ان کی طرح ہی منہ توڑ جواب دیتی جب زرمینے نے اس کے پاس آتے اس کا ہاتھ سختی سے تھام لیا تھا۔۔
“خدا کے لیے مورے کی حالت پر رحم کھاؤ اور چپ ہو جاؤ۔۔۔”
زرمینے اس کے آگے ہاتھ جوڑتے بولی تھی۔۔۔ جو خون ٹپکتی آنکھوں سے اپنی ماں کو جھکے سر کے ساتھ مجرموں کی طرح اپنی دادی کے سامنے کھڑے دیکھ رہی تھی۔۔ پورا دن وہ کنیز بن کر اس حویلی والوں کی خدمتیں کر رہی تھیں۔۔ اور اب سب مہمانوں کے سامنے ان کی عزت پل میں دو کوڑی کی کر دی گئی تھی۔۔۔
“خانم۔۔۔ خان بابا اندر آرہے ہیں۔۔۔۔”
بانو کے آکر بتانے پر سب ہی ایک دم الرٹ ہوئی تھیں۔۔۔
خانم کی نظریں وہیں سیڑھیوں پر جمی کھڑی زرغونہ کی جانب اٹھی تھیں۔۔۔

میریوحشتوںکےسائےازقلم_فرواخالد

Meri Wehshiton Ky Saye By Farwa Khalid , A Heartfelt Romantic Urdu Novel

Meri Wehshiton Ky Saye by Farwa Khalid is a beautifully written romantic Urdu novel that takes readers on an emotional journey of love, passion, and devotion. This captivating story is available for free in PDF format, allowing readers to enjoy it on their PC, Android phone, or any portable device.

If you’re searching for romantic novels in Urdu PDF download, Meri Wehshiton Ky Saye is a must-read. Farwa Khalid, a renowned and talented writer, is known for her engaging Urdu books. This novel perfectly blends intense romance, emotions, and deep storytelling, making it an ideal choice for readers who enjoy rude hero-based Urdu novels, new bold romantic novels, or short romantic Urdu novels.

Download Meri Wehshiton Ky Saye novel PDF for free from BestUrduNovel.com, a platform offering the latest complete Urdu novels for passionate readers. Enjoy this unforgettable love story anytime, anywhere!

Marg e muhabbat k Rangraiz hum by Huria Malik

Similar Posts

2 Comments

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *